قدیم روم کی دیومالائی کہانیوں اور حکمت کے ارد گرد گھومتی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی شہر میں ایک عورت نے لوگوں کو 12 کتابیں فروخت کرنے کی پیشکش کی جس میں خاتون کے بقول دنیا کا تمام علم اور حکمت موجود تھی، مگر ان کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔
لوگوں نے خاتون کی پیشکش کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے انھیں خریدنے سے انکار کر دیا۔ کہانی کے مطابق خاتون نے موقع پر ہی آدھی کتابیں جلا دیں اور بقیہ چھ کو دوگنی قیمت پر دوبارہ پیش کر دیا۔ اس مرتبہ بھی لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا لیکن وہ گھبرائے ہوئے تھے کہ آحر ماجرا کیا ہے۔
اس عورت نے مزید تین کتابیں جلا دیں، لیکن باقی فروخت کے لیے رکھ دیں اور ان کی قیمت کو دوبارہ دوگنا کر دیا۔ ایک بار پھر لوگوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔
آخر کار، صرف ایک کتاب باقی رہ گئی، جسے شہریوں نے نہایت مہنگے داموں خرید لیا، تاکہ وہ دنیا کے تمام علم اور حکمت کا 12واں حصہ تو سنبھال لیں۔
کتابیں علم کا خزانہ ہوتی ہیں جو ہمارے ذہنوں کو زرخیز بناتی ہی جو وقت اور جگہ سے ماورا ہمارے ذہنوں میں نئے نئے خیالات پیدا کرتی ہیں۔ ہم یہ بات اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ کس طرح کسی کتاب کے صفحے یا سکرین پر موجود الفاظ دنیا کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کے دماغوں میں رابطے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور صدیوں بعد بھی لوگ ان الفاظ سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔
سٹیفن کنگ نے درست کہا تھا کہ ’کتابیں اپنے اندر ایک منفرد قسم کا جادو لیے ہوتی ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ آپ کتاب کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں، اسے دوسروں کی نظروں سے چھپا کر رکھ سکتے ہیں (بظاہر مجھے یہ چیز بیکار اور محض علامتی لگتی ہے لیکن میرے بیٹے نے اپنی ڈائری پر تالا لگایا ہوا ہے)۔
کسی کتاب میں موجود الفاظ کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کچھ کو مٹانے کا ایک قدیم رواج رہا ہے، جیسے 19 ویں صدی کے ناولوں میں لکھی ہوئی لعنتیں یا ایسے الفاظ جو بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔
کتابوں کی طاقت
کتابیں علم ہیں اور علم ایک طاقت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کتابوں کو حکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا دیتی ہے۔ خاص طور پر ایسی حکومتیں اور مطلق العنان رہنماؤں کے لیے جو ہر حال میں علم پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے شہریوں کی سوچ کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ کتابوں پر اس طاقت کو استعمال کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ایسی کتابوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔
کتابوں کی ممانعت کی داستان بہت طویل اور قابل مذمت تاریخ ہے۔ یہ روایت مری نہیں اور یہ اب بھی ایک زندہ صنعت ہے۔
اس سال ستمبر میں ممنوعہ کتابوں کی 40 ویں برسی منائی گئی۔ یہ ایک سالانہ تقریب ہے جو امریکن لائبریری ایسوسی ایشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے زیر اہتمام منائی جاتی ہے اور اسے ’پڑھنے کی آزادی کا جشن‘ کہا جاتا ہے۔اس جشن کا آغاز 1982 میں سکولوں، لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں میں بعض کتابوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے ردعمل میں ہوا تھا۔
سچ تو ہے کہ میں ان لوگوں کی توانائی اور مسلسل نگرانی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس دور میں بھی کتابوں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ صدیوں پہلے ایسا کرنا آسان تھا کیونکہ تب زیادہ تر آبادی پڑھ نہیں سکتی تھی اور کتابوں تک رسائی بھی آسان نہیں تھی۔
مثال کے طور پر، کیتھولک چرچ ایک طویل عرصے تک کوشش کرتا رہا کہ عام لوگوں کو بائبل کے اس نسخے تک رسائی نہ ملے جو چرچ کی تحویل میں تھا اور چرچ نے صرف اس کے لاطینی ترجمہ کی منظوری دی تاکہ زیادہ تر عام لوگ اسے نہ پڑھ سکیں۔
بظاہر اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا کے کلام کو کسی غلط فہمی سے دور رکھا جائے لیکن چرچ کے اس اقدام نے یہ بھی یقینی بنایا کہ لوگ کلیسیا کے رہنماؤں کے اختیار پر سوال نہ اٹھا سکیں۔
یہاں تک کہ جب برطانیہ نے 19ویں صدی کے آخر میں نئے تعلیم قوانین متعارف کر دیے اور خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو گیا، اس وقت بھی کتابیں بہت مہنگی رہیں، خاص طور ایسا اعلیٰ ادب جس کے الفاظ اور خیالات سب سے زیادہ پائیدار (اور ممکنہ طور پر سب سے زیادہ خطرناک) ہو سکتے تھے۔
یوں یہ علم عام لوگوں کی دسترس سے باہر رہا۔ یہ صورتحال 1930 کی دہائی تک قائم رہی اور اس میں بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب البراٹس اور پینگوئن بکس جیسے اشاعتی اداروں نے سستی قیمتوں پر معیاری کتابیں فروخت کر کے علم کے لیے عام لوگوں کی پیاس بھجانے کا کام شروع نہیں کر دیا۔
’دماغ خراب کرنا‘
مثال کے طور پر آج بھی چینی حکومت سکولوں کی درسی کتابوں کے خلاف ایسے احکامات جاری کر رہی ہے جو اس کے خیال میں ملک کی بنیادی سوشلسٹ اقدار کے مطابق نہیں۔ اس میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو حکومت کے خیال میں منحرف اقدار، عالمی نظریات اور زندگی کے حوالے سے مختلف خیالات کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال جارج اورول کی مشہور کتابیں ’اینیمل فام (جانوروں کا باڑہ)‘ اور ’1984‘ ہیں۔
روس میں بھی، حکام کتابوں پر پابندی کی حکمت عملی پر کاربند رہے ہیں حالانکہ روس نے دنیا کو بہت بڑے مصنف دیے ہیں۔ سوویت دور کے دوران، حکومت اپنے شہریوں کی پڑھنے کی عادات کے ساتھ ساتھ ان کی باقی زندگیوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی کوشش مسلسل کرتی رہی ہے۔
مثلاً 1958 میں بورس پاسترناک کو ان کے اٹلی سے شائع ہونے والے ناول ’ڈاکٹر زیواگو‘ پر ادب کا نوبل انعام ملا، لیکن اس عالمی انعام نے سوویت حکام کواس قدر مشتعل کردیا کہ مصنف ایوارڈ لینے سےانکار پر مجبور ہو گئے۔
حکومت نے اس کتاب سے جس بات پر اتنی نفرت کی وہ بات اس کتاب میں اتنی تھی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے خود روسی انقلاب کی تعریف کرنا چھوڑ دیا - اس کتاب میں مذہبی رنگ شامل تھا اور عوام کی جرات کی تعریف کی گئی تھئ اس کا جشن منایا گیا تھا۔ چنانچہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ’ڈاکٹر زیواگو‘ کو ’زبردست پروپیگنڈہ‘ کے طور پر اسے روس میں شائع کرنے کا انتظام کر دیا۔
سوویت یونین میں کتابوں پر پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں مصنفین خود ہی اپنی تصنیفات شائع کرنے لگے۔
سوویت حکام سےاختلاف رائے رکھنے والے مصنف ولادیمیر بوکووسکی نے اس روایت کا خاصہ یوں کیا کہ ’میں ہی لکھتا ہوں، میں ہی اس کی تصحیح کرتا ہوں، میں ہی اسے سینسر کرتا ہوں، میں ہی اسے شائع کرتا ہوں، میں ہی اسے تقسیم کرتا ہوں اور اس کے لیے میں ہی جیل کی سزا بھی کاٹتا ہوں۔‘
لیکن اگر مغرب کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا ہے تو ان کا فخر بے جا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی جب کتابوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے، یا ان کو وِیٹو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہاں بھی دلیل وہی دی جاتی ہے جو دیگر ممالک میں دی جاتی ہے، یعنی یہ پابندی عام لوگوں کو بچانے کے لیے لگائی جا رہی ہے کیونکہ لوگ اتنے ذہین نہیں ہوتے کہ وہ درست فیصلہ کر سکیں۔
برطانیہ میں، کتابوں پر پابندی کا ہتھیار اکثر جنسی فحاشی کے خلاف ایک آلے کے طو پر کیا جاتا رہا ہے۔عام طور پر حکام کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کتابوں پر پابندی لگا کر سماجی تبدیلی کے عمل کو روکا جائے لیکن یہ ایک ایسا حربہ ہے جو ہمیشہ ناکام رہتا ہے لیکن اس کے باوجود حکام اکثر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
برطانیہ میں بہت سے مصنفین کی ساکھ کو انسدادِ فحاشی کے قوانین کے خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی لیے جیمز جوائس نے جب ’یولیسس‘ لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’پولیس سے قطع نظر، میں اپنے ناول میں سب کچھ ڈالنا چاہوں گا۔‘
برطانیہ میں 1922 سے 1936 تک ان کے کام پر پابندی عائد کردی گئی تھی، حالانکہ وہ صاحب جو اس وقت کتابوں کو ویٹو کرنے کے ذمہ دار تھے انھوں نے کتاب کے 732 صفحات میں سے صرف 42 صفحے پڑھے تھے۔ جوائس نے یولیسس‘ میں جو ’سب کچھ‘ ڈال دیا تھا اس میں مشت زنی ، گالم گلوچ ، جنسی تعلقات اور بیت الخلا کی عادات جیسی تمام باتیں شامل تھیں۔
جہاں تک مشہور برطانوی مصنف ڈی ایچ لارنس پر پابندیوں کا تعلق ہے تو وہ اپنی نوعیت کا خاص معاملہ تھا۔ ان کے تحریروں میں اکثر جنسی مواد شامل ہوتا تھا اور کئی برس تک برطانوی پراسیکیوٹر کے دفتر کی طرف سے ڈی ایچ لارنس کے خلاف مہم جاری رہی۔ اس دوران ان کی کتاب ’رینبو‘ کو جلا دیا گیا، ان کی نظموں کے مجموعے ’خیالات‘ کو ضبط کرنے کی کوششیں ہوتی رہی اور ان کے فن کی نمائش پر چھاپہے بھی مارے گئے۔
لارنس کے خلاف انتقامی کارروائی ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہی اور جب پینگوئن نے 1960 میں ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ شائع کیا تو ناشر کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی گئی۔
اس مقدمے کا آخری نکتہ بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں تھا جس میں جیوری نے متفقہ طور پر پینگوئن کے حق میں فیصلہ دیا۔ تین سال قبل اور اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کے چھ دہائیوں بعد برطانوی حکومت نے جج کو ناول کی وہ کاپی ایک غیر ملکی کے ہاتھ فروخت کرنے سے روک دیا جو جج کے پاس تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ ’ اپنے ملک کی تاریخ کا یہ اہم حصہ برطانیہ میں سے باہر نہیں جانا چاہیے۔‘
نظریات کو زندہ رکھنا
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہاں یہ چیز ایک لحاظ سے کتابوں کی پائیدار طاقت کوتسلیم کرتی ہے کہ وہاں کتابوں پر پابندی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ ٹیکنالوجی کی ہر نئی لہر، ٹی وی اور ویڈیو گیمز سے لے کر سوشل میڈیا تک، ہر چیز پر ’نامناسب‘ مواد کا الزام لگا کر اس پر پابندی کی بات ہوتی ہے۔
امریکہ میں سینسرشپ کا خاص نشانہ سکول بنتے ہیں کیونکہ حکام سمجھتے ہیں کہ بچوں کو خطرناک خیالات سے دور رکھنا مؤثر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ سے بھی کہ کتابوں کی دکانوں کے برعکس والدین اورکمیونٹی کے دیگر افراد سکول کی انتظامیہ پر زیادہ آسانی سے اثر اندز ہو سکتے ہیں۔
1982 میں، جس سال ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ شروع کیا گیا تھا، نیو یارک میں سکولوں میں سینسرشپ کی کوشش کا ایک معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا تھا۔ اس معاملے میں سکول کے بورڈ کا مؤقف یہ تھا کہ ’یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اپنے سکولوں میں بچوں کو اس اخلاقی خطرے سے محفوظ رکھیں.‘
سکول والے جس خطرے کا حوالہ دے رہے تھے وہ ایسی کتابیں تھیں جن میں ’غیر امریکی، عیسائی مخالف، سامی مخالف اور نفرت انگیز مواد‘ شامل تھا۔ اس معاملے میں یہود مخالف ہونے کا الزام یہودی ناول نگار برنارڈ ملامود کے مشہور ناول ’دی ریپیئر مین‘ پر لگایا گیا تھا، تاہم، عدالت نے آئین کی فرسٹ امینڈمنٹ (پہلی ترمیم) کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ’مقامی سکول بورڈز صرف اس وجہ سے اپنی لائبریریوں سے کتابیں نہیں ہٹا سکتے ہیں کہ وہ ان کتابوں میں موجود خیالات کو پسند نہیں کرتے ہیں۔‘
لیکن اس فیصلے سے بھی امریکہ میں کتابوں پر پابندی اور سینسر شپ کے حامیوں پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ امریکی سکولوں اور لائبریریوں میں کتابوں کو سینسر کرنے اور ان پر پابندی عائد کرنے کی کوششوں میں اہم کردار جنسی موضوعات پر لکھی جانے والے کتابیوں اور دیگر مواد ہے۔ یو ایس لائبریری ایسوسی ایشن کے آفس آف انٹلیکچوئل فریڈم کے اس وقت کے ڈائریکٹر جیمز لارو نے 2017 میں کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ امریکہ جنسی تعلقات کے بارے میں بہت خبطی ہے۔‘
روایتی طور پر، امریکہ میں جنسی تعلقات کا مطلب فحاشی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی جج پوٹر سٹیورٹ نے 1964 میں ایک ایسے ہی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ’فحش تصویر کشی‘ کی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی جسے بہت شہرت ملی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں کوئی ’پورن دیکھوں گا تومجھے معلوم جائے گا کہ یہ پورن ہے۔‘
لیکن آج کل امریکہ میں جن کتابوں پر ’جنسی‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ان جنس سے مراد کسی شخص کی صنفی شناخت سمجھی جاتی ہے نہ کہ اس کا فحش ہونا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں 2021 میں تین سب سے زیادہ اعتراض جن کتابوں پر کیا گیا ان پر الزام تھا کہ ان میں ہم جنست پرستی کی ترغیب دی گئی تھی۔
اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا کتاب پر پابندی نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہے یا معاشرے کی نظریاتی تطہیر کے لیے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سینسر کرنے والے افراد میں تخیل کی کمی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ کتابیں معاشرے میں نئے مضر رجحانات کو جنم دیتی ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ کتابیں محض حقیقت حال بیان کر رہی ہوں۔
امریکہ میں سینسرشپ کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ سینسر شپ کے پہلے پہلے مشہور متاثرین میں سے ایک ہیریئٹ بیچر سٹو تھے جن کے 1852 کے ناول ’انکل ٹام کا کیبن‘ کو سینسر کر دیا گیا تھا۔
ایک کتاب جتنی زیادہ لوگوں کی نظروں میں آئے گی، سینسر حکام کی طرف سے اس پر اتنی ہی زیادہ توجہ دی جائے گی۔
اس حوالے سے جے ڈی سالنگر کی ’کیچر ان دی رائی‘ کی بہت مثال دی جاتی ہے۔ اس کتاب پر 1960 میں ایک استاد کو برطرف کردیا گیا تھا اور اسے 1980 میں ریاست شمالی ڈکوٹا اور کیلیفورنیا کے اسکولوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
سالنگر کے ناول کو ویٹو کرنے کی دلیل عام طور پر یہ دی جاتی تھی کہ اس کی زبان ناشائستہ اور فحش تھی، حالانکہ آج کتاب کا پہلا جملہ’ وہ سب جو ڈیوڈ کاپرفیلڈ کہتا ہے بالکل بکواس ہے‘ بہت معصومانہ دکھائی دیتا ہے۔۔
کتابوں پر پابندی کا نظریہ بڑا وسیع جس میں ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جن کی عام طور پر حمایت نہیں کی جاتی ہے۔ اس میں مقبول فکشن لکھنے والے (پیٹر بینچلی ، سڈنی شیلڈن ، جوڈی پیکولٹ) سے لیکر مشہور کلاسیکی مصنف (مثلاً کرٹ وونگٹ ، ہارپر لی ، کیٹ چوپن) تک سب شامل ہیں۔
لیکن امید زندہ ہے۔
ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ جیسی تقریبات متنازع کتابوں اور سینسرشپ کے مسئلے کو عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔
اس کے علاوہ ہمیں ایک اور چیز بھی دکھائی دیتی ہے جسے ’سٹریسینڈ ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے یعنی جب کسی کتاب پر باپندی کی کوشش کی جاتی ہے تواس کتاب میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہو جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment