Realnews59
Ad
Sunday, December 25, 2022
Best Social Exchange Community
Monday, November 14, 2022
ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی جانب سے ڈولی پارٹن کے لیے دس کروڑ ڈالر کا اعلان
ایمازون کے بانی جیف بیزوس نےامریکی فوک موسیقی کی مشہور فنکارہ اور کئی خیراتی اداروں کی سرپرست، ڈولی پارٹن کو خیراتی مقاصد کے لیے ایک سو ملین (دس کروڑ) ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس ایوراڈ کا اعلان ارب پتی جیف بیزوس اور ان کی ساتھی لارین سانچیز نے ایک تقریب میں کیا۔
اس موقع پر لارین سانچیز نے ڈولی پارٹن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ایک ایسی خاتون ہیں جو دوسروں کی مالی مدد دل سے کرتی ہیں اور ان کے کام کے ہر پہلو میں ہمیں محبت اور ہمدردی کا جذبہ دکھائی دیتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ کی رقم کی تقسیم ڈولی پارٹن کی صوابدید پر ہے اور وہ جس خیراتی ادارے یا تنظیم کو چاہیں اس میں سے حصہ دے سکتی ہیں۔
’دی بیزوس کریج اینڈ سوِلٹی ایوراڈ‘ نامی اس انعام کا آغاز سنہ 2019 میں کیا گیا تھا اور اور اس کا مقصد ایسی شخصیات کی خدمات کا اعتراف کرنا جو ’مسائل کو حوصلے اور انسانیت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘
لارین سانچیز نے ڈولی پارٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس وقت کا اتنظار نہیں کر پا رہے جب آپ ایک سو ملین ڈالر کی یہ رقم (انسانیت کی بھلائی) کے کاموں پر خرچ کریں گی۔‘
انٹرنیٹ پر پوسٹ کی جانے والی اس تقریب کی ویڈیو میں ڈولی پارٹن کا کہنا تھا ’زبردست، آپ نے کیا کہا، پُورے دس کروڑ ڈالر۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ وہ لوگ جو صاحبِ حیثیت ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنا پیسہ وہاں لگائیں جہاں ان کا دل چاہتا ہے۔ میں پوری کوشش کروں گی کہ (ایوراڈ کی) یہ رقم بھلائی کے کاموں پر خرچ کروں۔‘
گزشتہ برس جب جیف بیزوس نے یہ ایوارڈ شروع کیا تھا تو انعام کی رقم مشہور سماجی کارکن وین جونز اور دنیا بھر میں آفات سے متاثرہ غریبوں کو مفت کھانا کھلانے والی تنظیم ’ورلڈ سینٹرل کِچن (عالمی مرکزی باورچی خانہ) کے بانی ہوزے اینڈریس کو دی گئی تھی۔
اس ایوارڈ سے پہلے، اسی ماہ کنٹری سنِگر، گیت نویس، اداکارہ، کامیاب کاروباری خاتون ڈولی پارٹن کا نام دنیائے موسیقی کے بڑے بڑے ناموں کی فہرست ’راک اینڈ رول ہال آف فیم‘ میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
ڈولی پارٹن نہ صرف ایک طویل عرصے سے خیراتی تنظیموں کے لیے رقوم اکھٹی کرتی رہی ہیں بلکہ انھوں نے ’ڈولی وُڈ فاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی بنایا ہے جو دنیا بھر میں بچوں کی کتابیں تقسیم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ امریکہ میں کووِڈ 19 کی ویکسین کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا مقابلہ بڑے زور و شور سے کرتی رہی ہیں۔
سنہ 2020 میں انھوں نے کورونا وائرس پر تحقیق کے لیے ایک یونیورسٹی کو دس لاکھ ڈالر عطیہ کیے تھے۔ یہ یونیورسٹی ان اداروں میں سے ایک ہے جہاں ’موڈرنا‘ ویکسین پر ابتدائی تجربات کیے گئے تھے۔.
بالی وڈ ڈائری: سوناکشی سنہا اور ہما خان کی نئی فلم اور نرگس فخری کے انڈسٹری سے شکوے
عامر خان ایک بار پھر آن لائن بھکتوں کے نشانے پر ہیں اور اس بار اُن کا ایک ٹی وی اشتہار اُن کے خلاف کیے جانے والے طنز اور نفرت کی وجہ بنا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ایک بینک کے لیے بنائے گئے اس اشتہار سے ’ہندوؤں کے مذہبی جذبات‘ مجروح ہوئے ہیں جس میں ایک لڑکے کو رخصتی کے بعد اپنی بیوی کے گھر جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں اسے وہ تمام رسمیں کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو ایک بہو اپنی سسرال میں ادا کرتی ہے۔
شدید تنقید کے بعد یہ اشہار واپس لے لیا گیا۔
انڈیا میں اخلاقی پولسِنگ کے اس دور میں یہ پہلا واقعہ نہیں جب کسی اشتہار پر ہنگامہ ہوا ہو اور پھر وہ اشتہار واپس لے لیا گیا ہو۔
اس سے پہلے 2020 میں زیورات بنانے والی کمپنی ’تنِشک‘ کو اس وقت بے بھاؤ کی پڑی تھیں جب ان کے ایک اشتہار میں ایک ہندو لڑکی کو ایک مسلم گھر کی بہو دکھایا گیا تھا۔ تنِشک کے اس اشتہار پر ’لوو جہاد‘ کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا گیا تھا اور آخر کار کمپنی کو یہ اشتہار واپس لینا پڑا تھا یعنی اس کی تشہیر بند کر دی گئی تھی۔
اس کے بعد ’ڈابر‘ کے ایک اشتہار میں دو ہم جنس پرست لڑکیوں کو ’کڑوا چوتھ‘ کا ورتھ رکھتے ہوئے دکھایا گیا تھا (یاد رہے کہ ہندو مذہب میں بیویاں اپنے شوہر کی لمبی عمر کے لیے روزہ رکھتی ہیں)۔
خیر ہنگامے کے بعد یہ اشتہار بھی واپس لے لیا گیا۔ اب اس اشتہار کے بعد عامر خان کو بے تحاشہ ٹرول کیا جا رہا ہے۔
تازہ واقعے میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ یہاں مسئلہ یہ اشتہار ہے یا عامر خان؟ اور کیا اس مورل پولسِنگ سے نقصان کس کو پہنچے گا عامر خان کو؟
ملک میں اگر تخلیقی صلاحیتوں یا کاموں پر اس طرح کے بائیکاٹ اور پابندیوں کی تلواریں چلتی رہیں تو نقصان کس کا ہو گا، یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی کام یا رروزگار سے صرف ایک شخص یا چہرہ نہیں بلکہ پوری کمپنی یا انڈسٹری وابستہ ہوتی ہے جس میں ہر مذہب یا فرقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
خواتین کے ’وزن‘ کے مسئلے پر فلم
بالی ووڈ میں یوں تو مختلف سماجی مسائل پر فلمیں بنتی ہی رہتی ہیں چاہے وہ مسائل مردوں کے ہوں یا خواتین کے۔
رواں ہفتے ایک نئی فلم ’ڈبل ایکس ایل‘ کا ٹریلر ریلیز ہوا جس میں سوناکشی سنہا اور ہما خان مرکزی کرداروں میں ہیں۔ یہ فلم معاشرے میں عورتوں کی جسامت کے حوالے سے طے شدہ معیار کو چیلنج کرتی ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں کسی انسان کو اس کی جسمانی معذوری یا ظاہری شکل کو عیب کے طور لیا جاتا ہے اور جہاں کئی مواقعوں پر لڑکی کی رنگت یا اس کی جسامت کو قبولیت کا پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ فلم کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتی نظر آتی ہے۔
یہ فلم ان دو لڑکیوں کی کہانی ہے جنھیں اُن کے وزن کی وجہ سے زندگی میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویسے یہ فلم حقیقت سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ ہما قریشی اور سوناکشی سنہا کے دل کے بھی قریب کہی جا سکتی ہے کیونکہ ان دونوں کو ہھی ایک زمانے میں اُن کے وزن کی بنیاد پر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
فلم انڈسٹری میں لوگوں کے ایک نہیں بلکہ تین تین چہرے ہوتے ہیں
بالی ووڈ سے بار بار جا کر واپس آنے والی اداکارہ نرکس فخری کا کہنا ہے کہ فلم انڈسٹری میں لوگوں کے ایک نہیں بلکہ تین چہرے ہوتے ہیں: ایک بزنس کے لیے، دوسرا تخلیقی اور تیسرا پرسنل یعنی خود اپنے لیے۔
رنبیر کپور کے ساتھ فلم ’راک سٹار‘ سے اپنا فلمی کریئر شروع کرنے والی نرگس کا کہنا ہے کہ اس بالی وڈ کے کھیل میں لوگ ایک مختلف شبیہہ یا چہرہ لگا لیتے ہیں اور انھیں لگتا تھا کہ سیدھی اور سچی بات کرنا ہی بہتر ہے لیکن وہ نادان تھیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انھیں انڈسٹری کے کھیل کا علم نہیں تھا۔
’مسالہ نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے نرگس کا کہنا تھا کہ جب وہ نئی تھیں تو انھیں نہیں معلوم تھا کہ بالی وڈ کلچر میں کس طرح رہنا ہے، یہاں کئی بار آپ کو ان لوگوں سے بھی بات کرنی پڑتی ہے جنھیں آپ پسند نہیں کرتے۔ یہاں رہتے ہوئے مجھے ڈپریشن ہونے لگا تھا اس لیے میں واپس اپنے گھر والوں کے پاس امریکہ چلی گئی تھی۔
حال ہی میں دبئی میں ہونے والے آئیفا ایوارڈز میں شرکت کرنے والی نرگس نے چند بڑی فلموں میں کام کیا اور کچھ ناکام فلموں کے بعد وہ امریکہ واپس چلی گئی تھیں۔ نرگس اب ایک بار پھر بالی وڈ میں واپسی کے لیے تیار ہیں تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس پراجیکٹ کے ساتھ بالی وڈ میں واپس آ رہی ہیں۔
ڈپریشن پر دیپیکا کی آگہی
ڈپریشن کی بات کی جائے تو دپیکا نے اس ذہنی مرض کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربات سب کے سامنے رکھ کر جس طرح بیداری پیدا کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔
رواں ہفتے برطانیہ کے پرنس چارلس کی بیگم میگن مارکل کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ کے دوران دپیکا نے بتایا کہ کس طرح لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے ڈپریشن کی بات کو اپنی فلموں کے پروموشن کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
دپیکا نے ان افواہوں کو بھی مسترد کیا کہ ان کی شادی شدہ زندگی میں کسی طرح کے مسائل ہیں۔
دپیکا نے کہا کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جو آپ کو ایسے وقت میں بھی ہو سکتی ہے جب آپ نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ جب انھیں اس صورتحال کا احساس ہوا تب ان کی فلمیں کامیاب ہو رہی تھیں، گھر اور باہر ان کی زندگی میں سکون تھا لیکن اچانک ایک صبح وہ بہیوش ہو گئیں اور اس کے بعد سے وہ ہمیشہ بغیر کسی وجہ کے روتی رہتی تھیں اور افسردہ رہنے لگیں۔
تاہم پروفیشنل مدد کے بعد وہ اپنی اس ذہنی کیفیت پر قابو پانے میں کامیاب رہیں۔
انڈیا: لڑکے نے اپنی دوست کی لاش کے ٹکڑے کر کے فریج میں رکھ دیئے
دلی پولیس نے مہرولی علاقے میں چھ ماہ قبل ہونے والے ایک قتل کا معاملہ حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس معاملے میں پولیس نے آفتاب نام کے ایک شخص کو اپنی دوست کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ الزام ہے کہ آفتاب نے 18 مئی کو شردھا کا قتل کیا اور پھر لاش کے ٹکڑے کرکے جنگل میں مختلف مقامات پر پھینک دیے یہ دونوں اکٹھے رہ رہے تھے۔
دہلی پولیس کے مطابق ملزم آفتاب اور لڑکی ممبئی میں کام کے دوران قریب آ گئے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن گھر والے اس رشتے سے ناراض تھے۔ پولیس کے مطابق لڑکی کا خاندان مہاراشٹر کے پالگھر میں رہتا ہے۔ گھر والوں کی ناراضی کی وجہ سے دونوں دہلی آگئے اور چھتر پور علاقے میں ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی نے آفتاب پر شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا تو ان کے درمیان جھگڑے بڑھنے لگے۔ 18 مئی کو ان کے درمیان شادی کے معاملے پر جھگڑا ہوا۔ آفتاب نے طیش میں آکر لڑکی کا گلا دبا کر قتل کردیا۔
دہلی پولیس کے ایڈیشنل ڈی سی پی انکت چوہان نے کہا ہے کہ آفتاب نے اعتراف کیا ہے کہ قتل کے بعد اس نے اپنی گرل فرینڈ کی لاش کے کئی ٹکڑے کر دیے۔ لاش سے بدبو نہ آئے اس لیے اس نے بڑے سائز کا نیا فریج خریدا اور اس میں لاش کے ٹکڑے رکھے۔ اکثر وہ لاش کے ٹکڑے رات کے وقت شہر کے مختلف علاقوں میں جنگل میں پھینک دیتا تھا۔ ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟
بی بی سی مراٹھی سروس کے نامہ نگار مینک بھاگوت نے پولیس سے جو ایف آئی آر کی کاپی حاصل کی ہے اس سےکیس سے متعلق کئی اہم لنکس سامنے آئے ہیں۔ شردھا کے والد نے پولیس میں درج شکایت میں بتایا کہ ان کی بیوی اور وہ کچھ سال قبل الگ ہوگئے تھے اور وہ مہاراشٹر کے پالگھر میں اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی شردھا 2018 میں ممبئی کے ایک کال سینٹر میں کام کرتی تھی، جہاں اس کی ملاقات آفتاب پونا والا نامی نوجوان سے ہوئی۔ یشردھا کے والد کے مطابق، ’2019 میں شردھا نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ آفتاب کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہنا چاہتی ہے۔ لیکن میری بیوی نے اس سے انکار کر دیا کیونکہ ہم دوسرے مذہب اور دوسری ذات میں شادی نہیں کرتے۔ ہمارے انکار پر بیٹی نے کہا کہ اس کی عمر 25 سال ہے اور اسے اپنے فیصلے خود کرنے کا حق ہے‘۔ اپنی ماں سے جھگڑے کے بعد شردھا نے گھر چھوڑ دیا اور آفتاب کے ساتھ رہنے لگی۔ ایف آئی آر کے مطابق، ’شردھا اور آفتاب کچھ دن نیا گاؤں میں رہے اور پھر وسائی کے علاقے میں رہنے لگے۔ میری بیٹی نے اپنی ماں کو ایک مرتبہ اپنے پاس بلایا تھا اور بتایا کہ آفتاب اس کے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے۔
وہ کتابیں جنھیں پڑھنا ’نہایت خطرناک‘ ہو سکتا ہے
قدیم روم کی دیومالائی کہانیوں اور حکمت کے ارد گرد گھومتی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی شہر میں ایک عورت نے لوگوں کو 12 کتابیں فروخت کرنے کی پیشکش کی جس میں خاتون کے بقول دنیا کا تمام علم اور حکمت موجود تھی، مگر ان کتابوں کی قیمت بہت زیادہ تھی۔
لوگوں نے خاتون کی پیشکش کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے انھیں خریدنے سے انکار کر دیا۔ کہانی کے مطابق خاتون نے موقع پر ہی آدھی کتابیں جلا دیں اور بقیہ چھ کو دوگنی قیمت پر دوبارہ پیش کر دیا۔ اس مرتبہ بھی لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا لیکن وہ گھبرائے ہوئے تھے کہ آحر ماجرا کیا ہے۔
اس عورت نے مزید تین کتابیں جلا دیں، لیکن باقی فروخت کے لیے رکھ دیں اور ان کی قیمت کو دوبارہ دوگنا کر دیا۔ ایک بار پھر لوگوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔
آخر کار، صرف ایک کتاب باقی رہ گئی، جسے شہریوں نے نہایت مہنگے داموں خرید لیا، تاکہ وہ دنیا کے تمام علم اور حکمت کا 12واں حصہ تو سنبھال لیں۔
کتابیں علم کا خزانہ ہوتی ہیں جو ہمارے ذہنوں کو زرخیز بناتی ہی جو وقت اور جگہ سے ماورا ہمارے ذہنوں میں نئے نئے خیالات پیدا کرتی ہیں۔ ہم یہ بات اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ کس طرح کسی کتاب کے صفحے یا سکرین پر موجود الفاظ دنیا کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کے دماغوں میں رابطے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور صدیوں بعد بھی لوگ ان الفاظ سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔
سٹیفن کنگ نے درست کہا تھا کہ ’کتابیں اپنے اندر ایک منفرد قسم کا جادو لیے ہوتی ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ آپ کتاب کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں، اسے دوسروں کی نظروں سے چھپا کر رکھ سکتے ہیں (بظاہر مجھے یہ چیز بیکار اور محض علامتی لگتی ہے لیکن میرے بیٹے نے اپنی ڈائری پر تالا لگایا ہوا ہے)۔
کسی کتاب میں موجود الفاظ کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کچھ کو مٹانے کا ایک قدیم رواج رہا ہے، جیسے 19 ویں صدی کے ناولوں میں لکھی ہوئی لعنتیں یا ایسے الفاظ جو بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔
کتابوں کی طاقت
کتابیں علم ہیں اور علم ایک طاقت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کتابوں کو حکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا دیتی ہے۔ خاص طور پر ایسی حکومتیں اور مطلق العنان رہنماؤں کے لیے جو ہر حال میں علم پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے شہریوں کی سوچ کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ کتابوں پر اس طاقت کو استعمال کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ایسی کتابوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔
کتابوں کی ممانعت کی داستان بہت طویل اور قابل مذمت تاریخ ہے۔ یہ روایت مری نہیں اور یہ اب بھی ایک زندہ صنعت ہے۔
اس سال ستمبر میں ممنوعہ کتابوں کی 40 ویں برسی منائی گئی۔ یہ ایک سالانہ تقریب ہے جو امریکن لائبریری ایسوسی ایشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے زیر اہتمام منائی جاتی ہے اور اسے ’پڑھنے کی آزادی کا جشن‘ کہا جاتا ہے۔اس جشن کا آغاز 1982 میں سکولوں، لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں میں بعض کتابوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے ردعمل میں ہوا تھا۔
سچ تو ہے کہ میں ان لوگوں کی توانائی اور مسلسل نگرانی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو اس دور میں بھی کتابوں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ صدیوں پہلے ایسا کرنا آسان تھا کیونکہ تب زیادہ تر آبادی پڑھ نہیں سکتی تھی اور کتابوں تک رسائی بھی آسان نہیں تھی۔
مثال کے طور پر، کیتھولک چرچ ایک طویل عرصے تک کوشش کرتا رہا کہ عام لوگوں کو بائبل کے اس نسخے تک رسائی نہ ملے جو چرچ کی تحویل میں تھا اور چرچ نے صرف اس کے لاطینی ترجمہ کی منظوری دی تاکہ زیادہ تر عام لوگ اسے نہ پڑھ سکیں۔
بظاہر اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا کے کلام کو کسی غلط فہمی سے دور رکھا جائے لیکن چرچ کے اس اقدام نے یہ بھی یقینی بنایا کہ لوگ کلیسیا کے رہنماؤں کے اختیار پر سوال نہ اٹھا سکیں۔
یہاں تک کہ جب برطانیہ نے 19ویں صدی کے آخر میں نئے تعلیم قوانین متعارف کر دیے اور خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو گیا، اس وقت بھی کتابیں بہت مہنگی رہیں، خاص طور ایسا اعلیٰ ادب جس کے الفاظ اور خیالات سب سے زیادہ پائیدار (اور ممکنہ طور پر سب سے زیادہ خطرناک) ہو سکتے تھے۔
یوں یہ علم عام لوگوں کی دسترس سے باہر رہا۔ یہ صورتحال 1930 کی دہائی تک قائم رہی اور اس میں بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب البراٹس اور پینگوئن بکس جیسے اشاعتی اداروں نے سستی قیمتوں پر معیاری کتابیں فروخت کر کے علم کے لیے عام لوگوں کی پیاس بھجانے کا کام شروع نہیں کر دیا۔
’دماغ خراب کرنا‘
مثال کے طور پر آج بھی چینی حکومت سکولوں کی درسی کتابوں کے خلاف ایسے احکامات جاری کر رہی ہے جو اس کے خیال میں ملک کی بنیادی سوشلسٹ اقدار کے مطابق نہیں۔ اس میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو حکومت کے خیال میں منحرف اقدار، عالمی نظریات اور زندگی کے حوالے سے مختلف خیالات کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال جارج اورول کی مشہور کتابیں ’اینیمل فام (جانوروں کا باڑہ)‘ اور ’1984‘ ہیں۔
روس میں بھی، حکام کتابوں پر پابندی کی حکمت عملی پر کاربند رہے ہیں حالانکہ روس نے دنیا کو بہت بڑے مصنف دیے ہیں۔ سوویت دور کے دوران، حکومت اپنے شہریوں کی پڑھنے کی عادات کے ساتھ ساتھ ان کی باقی زندگیوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی کوشش مسلسل کرتی رہی ہے۔
مثلاً 1958 میں بورس پاسترناک کو ان کے اٹلی سے شائع ہونے والے ناول ’ڈاکٹر زیواگو‘ پر ادب کا نوبل انعام ملا، لیکن اس عالمی انعام نے سوویت حکام کواس قدر مشتعل کردیا کہ مصنف ایوارڈ لینے سےانکار پر مجبور ہو گئے۔
حکومت نے اس کتاب سے جس بات پر اتنی نفرت کی وہ بات اس کتاب میں اتنی تھی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے خود روسی انقلاب کی تعریف کرنا چھوڑ دیا - اس کتاب میں مذہبی رنگ شامل تھا اور عوام کی جرات کی تعریف کی گئی تھئ اس کا جشن منایا گیا تھا۔ چنانچہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ’ڈاکٹر زیواگو‘ کو ’زبردست پروپیگنڈہ‘ کے طور پر اسے روس میں شائع کرنے کا انتظام کر دیا۔
سوویت یونین میں کتابوں پر پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں مصنفین خود ہی اپنی تصنیفات شائع کرنے لگے۔
سوویت حکام سےاختلاف رائے رکھنے والے مصنف ولادیمیر بوکووسکی نے اس روایت کا خاصہ یوں کیا کہ ’میں ہی لکھتا ہوں، میں ہی اس کی تصحیح کرتا ہوں، میں ہی اسے سینسر کرتا ہوں، میں ہی اسے شائع کرتا ہوں، میں ہی اسے تقسیم کرتا ہوں اور اس کے لیے میں ہی جیل کی سزا بھی کاٹتا ہوں۔‘
لیکن اگر مغرب کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا ہے تو ان کا فخر بے جا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی جب کتابوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے، یا ان کو وِیٹو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہاں بھی دلیل وہی دی جاتی ہے جو دیگر ممالک میں دی جاتی ہے، یعنی یہ پابندی عام لوگوں کو بچانے کے لیے لگائی جا رہی ہے کیونکہ لوگ اتنے ذہین نہیں ہوتے کہ وہ درست فیصلہ کر سکیں۔
برطانیہ میں، کتابوں پر پابندی کا ہتھیار اکثر جنسی فحاشی کے خلاف ایک آلے کے طو پر کیا جاتا رہا ہے۔عام طور پر حکام کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کتابوں پر پابندی لگا کر سماجی تبدیلی کے عمل کو روکا جائے لیکن یہ ایک ایسا حربہ ہے جو ہمیشہ ناکام رہتا ہے لیکن اس کے باوجود حکام اکثر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
برطانیہ میں بہت سے مصنفین کی ساکھ کو انسدادِ فحاشی کے قوانین کے خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی لیے جیمز جوائس نے جب ’یولیسس‘ لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’پولیس سے قطع نظر، میں اپنے ناول میں سب کچھ ڈالنا چاہوں گا۔‘
برطانیہ میں 1922 سے 1936 تک ان کے کام پر پابندی عائد کردی گئی تھی، حالانکہ وہ صاحب جو اس وقت کتابوں کو ویٹو کرنے کے ذمہ دار تھے انھوں نے کتاب کے 732 صفحات میں سے صرف 42 صفحے پڑھے تھے۔ جوائس نے یولیسس‘ میں جو ’سب کچھ‘ ڈال دیا تھا اس میں مشت زنی ، گالم گلوچ ، جنسی تعلقات اور بیت الخلا کی عادات جیسی تمام باتیں شامل تھیں۔
جہاں تک مشہور برطانوی مصنف ڈی ایچ لارنس پر پابندیوں کا تعلق ہے تو وہ اپنی نوعیت کا خاص معاملہ تھا۔ ان کے تحریروں میں اکثر جنسی مواد شامل ہوتا تھا اور کئی برس تک برطانوی پراسیکیوٹر کے دفتر کی طرف سے ڈی ایچ لارنس کے خلاف مہم جاری رہی۔ اس دوران ان کی کتاب ’رینبو‘ کو جلا دیا گیا، ان کی نظموں کے مجموعے ’خیالات‘ کو ضبط کرنے کی کوششیں ہوتی رہی اور ان کے فن کی نمائش پر چھاپہے بھی مارے گئے۔
لارنس کے خلاف انتقامی کارروائی ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہی اور جب پینگوئن نے 1960 میں ’لیڈی چیٹرلیز لوور‘ شائع کیا تو ناشر کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی گئی۔
اس مقدمے کا آخری نکتہ بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں تھا جس میں جیوری نے متفقہ طور پر پینگوئن کے حق میں فیصلہ دیا۔ تین سال قبل اور اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کے چھ دہائیوں بعد برطانوی حکومت نے جج کو ناول کی وہ کاپی ایک غیر ملکی کے ہاتھ فروخت کرنے سے روک دیا جو جج کے پاس تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ ’ اپنے ملک کی تاریخ کا یہ اہم حصہ برطانیہ میں سے باہر نہیں جانا چاہیے۔‘
نظریات کو زندہ رکھنا
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہاں یہ چیز ایک لحاظ سے کتابوں کی پائیدار طاقت کوتسلیم کرتی ہے کہ وہاں کتابوں پر پابندی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ ٹیکنالوجی کی ہر نئی لہر، ٹی وی اور ویڈیو گیمز سے لے کر سوشل میڈیا تک، ہر چیز پر ’نامناسب‘ مواد کا الزام لگا کر اس پر پابندی کی بات ہوتی ہے۔
امریکہ میں سینسرشپ کا خاص نشانہ سکول بنتے ہیں کیونکہ حکام سمجھتے ہیں کہ بچوں کو خطرناک خیالات سے دور رکھنا مؤثر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ سے بھی کہ کتابوں کی دکانوں کے برعکس والدین اورکمیونٹی کے دیگر افراد سکول کی انتظامیہ پر زیادہ آسانی سے اثر اندز ہو سکتے ہیں۔
1982 میں، جس سال ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ شروع کیا گیا تھا، نیو یارک میں سکولوں میں سینسرشپ کی کوشش کا ایک معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا تھا۔ اس معاملے میں سکول کے بورڈ کا مؤقف یہ تھا کہ ’یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اپنے سکولوں میں بچوں کو اس اخلاقی خطرے سے محفوظ رکھیں.‘
سکول والے جس خطرے کا حوالہ دے رہے تھے وہ ایسی کتابیں تھیں جن میں ’غیر امریکی، عیسائی مخالف، سامی مخالف اور نفرت انگیز مواد‘ شامل تھا۔ اس معاملے میں یہود مخالف ہونے کا الزام یہودی ناول نگار برنارڈ ملامود کے مشہور ناول ’دی ریپیئر مین‘ پر لگایا گیا تھا، تاہم، عدالت نے آئین کی فرسٹ امینڈمنٹ (پہلی ترمیم) کی بنیاد پر یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ’مقامی سکول بورڈز صرف اس وجہ سے اپنی لائبریریوں سے کتابیں نہیں ہٹا سکتے ہیں کہ وہ ان کتابوں میں موجود خیالات کو پسند نہیں کرتے ہیں۔‘
لیکن اس فیصلے سے بھی امریکہ میں کتابوں پر پابندی اور سینسر شپ کے حامیوں پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ امریکی سکولوں اور لائبریریوں میں کتابوں کو سینسر کرنے اور ان پر پابندی عائد کرنے کی کوششوں میں اہم کردار جنسی موضوعات پر لکھی جانے والے کتابیوں اور دیگر مواد ہے۔ یو ایس لائبریری ایسوسی ایشن کے آفس آف انٹلیکچوئل فریڈم کے اس وقت کے ڈائریکٹر جیمز لارو نے 2017 میں کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ امریکہ جنسی تعلقات کے بارے میں بہت خبطی ہے۔‘
روایتی طور پر، امریکہ میں جنسی تعلقات کا مطلب فحاشی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی جج پوٹر سٹیورٹ نے 1964 میں ایک ایسے ہی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ’فحش تصویر کشی‘ کی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی جسے بہت شہرت ملی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں کوئی ’پورن دیکھوں گا تومجھے معلوم جائے گا کہ یہ پورن ہے۔‘
لیکن آج کل امریکہ میں جن کتابوں پر ’جنسی‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ان جنس سے مراد کسی شخص کی صنفی شناخت سمجھی جاتی ہے نہ کہ اس کا فحش ہونا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں 2021 میں تین سب سے زیادہ اعتراض جن کتابوں پر کیا گیا ان پر الزام تھا کہ ان میں ہم جنست پرستی کی ترغیب دی گئی تھی۔
اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا کتاب پر پابندی نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہے یا معاشرے کی نظریاتی تطہیر کے لیے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سینسر کرنے والے افراد میں تخیل کی کمی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ کتابیں معاشرے میں نئے مضر رجحانات کو جنم دیتی ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ کتابیں محض حقیقت حال بیان کر رہی ہوں۔
امریکہ میں سینسرشپ کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ سینسر شپ کے پہلے پہلے مشہور متاثرین میں سے ایک ہیریئٹ بیچر سٹو تھے جن کے 1852 کے ناول ’انکل ٹام کا کیبن‘ کو سینسر کر دیا گیا تھا۔
ایک کتاب جتنی زیادہ لوگوں کی نظروں میں آئے گی، سینسر حکام کی طرف سے اس پر اتنی ہی زیادہ توجہ دی جائے گی۔
اس حوالے سے جے ڈی سالنگر کی ’کیچر ان دی رائی‘ کی بہت مثال دی جاتی ہے۔ اس کتاب پر 1960 میں ایک استاد کو برطرف کردیا گیا تھا اور اسے 1980 میں ریاست شمالی ڈکوٹا اور کیلیفورنیا کے اسکولوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
سالنگر کے ناول کو ویٹو کرنے کی دلیل عام طور پر یہ دی جاتی تھی کہ اس کی زبان ناشائستہ اور فحش تھی، حالانکہ آج کتاب کا پہلا جملہ’ وہ سب جو ڈیوڈ کاپرفیلڈ کہتا ہے بالکل بکواس ہے‘ بہت معصومانہ دکھائی دیتا ہے۔۔
کتابوں پر پابندی کا نظریہ بڑا وسیع جس میں ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جن کی عام طور پر حمایت نہیں کی جاتی ہے۔ اس میں مقبول فکشن لکھنے والے (پیٹر بینچلی ، سڈنی شیلڈن ، جوڈی پیکولٹ) سے لیکر مشہور کلاسیکی مصنف (مثلاً کرٹ وونگٹ ، ہارپر لی ، کیٹ چوپن) تک سب شامل ہیں۔
لیکن امید زندہ ہے۔
ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ جیسی تقریبات متنازع کتابوں اور سینسرشپ کے مسئلے کو عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔
اس کے علاوہ ہمیں ایک اور چیز بھی دکھائی دیتی ہے جسے ’سٹریسینڈ ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے یعنی جب کسی کتاب پر باپندی کی کوشش کی جاتی ہے تواس کتاب میں لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہو جاتی ہے۔
نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست: ’ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے‘
سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے نیب میں ہونے والی حالیہ ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’پاکستان میں لوگ آئین کو سبوثاژ کرکے بھی گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’قوانین کا معیار عدالتیں نہیں، بلکہ آئین طے کرتا ہے۔‘
سوموار کے دن کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت کی طرف سے نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ بدعنوان افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے اور کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آ سکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہو گی؟
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟ وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد بہت سے مقدمات کو نیب سے لے کر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اور اگر ایسا ہوا تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایگزیکٹیو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہوں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ان کی یہ ذاتی رائے ہے کہ انھیں پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی۔ انھوں نے کہا کہ قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس ملک میں کرپشن ہو گی اس کا بیڑا غرق ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نا کرے۔ انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ اپنے ساتھی جج جسٹس اعجاز الاحسن کی بات سے متفق نظر نہیں آئے۔
انھوں نے ریمارکس دیے کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ملک میں کرپشن پر قوانین موجود ہی نا ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے گا؟
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کیے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس ریمارکس کا جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں تو بنیادی حقوق کیسے متاثر ہو گئے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔