Ad

Monday, November 14, 2022

بالی وڈ ڈائری: سوناکشی سنہا اور ہما خان کی نئی فلم اور نرگس فخری کے انڈسٹری سے شکوے


 عامر خان ایک بار پھر آن لائن بھکتوں کے نشانے پر ہیں اور اس بار اُن کا ایک ٹی وی اشتہار اُن کے خلاف کیے جانے والے طنز اور نفرت کی وجہ بنا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ایک بینک کے لیے بنائے گئے اس اشتہار سے ’ہندوؤں کے مذہبی جذبات‘ مجروح ہوئے ہیں جس میں ایک لڑکے کو رخصتی کے بعد اپنی بیوی کے گھر جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں اسے وہ تمام رسمیں کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو ایک بہو اپنی سسرال میں ادا کرتی ہے۔

شدید تنقید کے بعد یہ اشہار واپس لے لیا گیا۔

انڈیا میں اخلاقی پولسِنگ کے اس دور میں یہ پہلا واقعہ نہیں جب کسی اشتہار پر ہنگامہ ہوا ہو اور پھر وہ اشتہار واپس لے لیا گیا ہو۔

اس سے پہلے 2020 میں زیورات بنانے والی کمپنی ’تنِشک‘ کو اس وقت بے بھاؤ کی پڑی تھیں جب ان کے ایک اشتہار میں ایک ہندو لڑکی کو ایک مسلم گھر کی بہو دکھایا گیا تھا۔ تنِشک کے اس اشتہار پر ’لوو جہاد‘ کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا گیا تھا اور آخر کار کمپنی کو یہ اشتہار واپس لینا پڑا تھا یعنی اس کی تشہیر بند کر دی گئی تھی۔

اس کے بعد ’ڈابر‘ کے ایک اشتہار میں دو ہم جنس پرست لڑکیوں کو ’کڑوا چوتھ‘ کا ورتھ رکھتے ہوئے دکھایا گیا تھا (یاد رہے کہ ہندو مذہب میں بیویاں اپنے شوہر کی لمبی عمر کے لیے روزہ رکھتی ہیں)۔

خیر ہنگامے کے بعد یہ اشتہار بھی واپس لے لیا گیا۔ اب اس اشتہار کے بعد عامر خان کو بے تحاشہ ٹرول کیا جا رہا ہے۔

تازہ واقعے میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ یہاں مسئلہ یہ اشتہار ہے یا عامر خان؟ اور کیا اس مورل پولسِنگ سے نقصان کس کو پہنچے گا عامر خان کو؟

ملک میں اگر تخلیقی صلاحیتوں یا کاموں پر اس طرح کے بائیکاٹ اور پابندیوں کی تلواریں چلتی رہیں تو نقصان کس کا ہو گا، یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی کام یا رروزگار سے صرف ایک شخص یا چہرہ نہیں بلکہ پوری کمپنی یا انڈسٹری وابستہ ہوتی ہے جس میں ہر مذہب یا فرقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔

خواتین کے ’وزن‘ کے مسئلے پر فلم

بالی ووڈ میں یوں تو مختلف سماجی مسائل پر فلمیں بنتی ہی رہتی ہیں چاہے وہ مسائل مردوں کے ہوں یا خواتین کے۔

رواں ہفتے ایک نئی فلم ’ڈبل ایکس ایل‘ کا ٹریلر ریلیز ہوا جس میں سوناکشی سنہا اور ہما خان مرکزی کرداروں میں ہیں۔ یہ فلم معاشرے میں عورتوں کی جسامت کے حوالے سے طے شدہ معیار کو چیلنج کرتی ہے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں کسی انسان کو اس کی جسمانی معذوری یا ظاہری شکل کو عیب کے طور لیا جاتا ہے اور جہاں کئی مواقعوں پر لڑکی کی رنگت یا اس کی جسامت کو قبولیت کا پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ فلم کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتی نظر آتی ہے۔

یہ فلم ان دو لڑکیوں کی کہانی ہے جنھیں اُن کے وزن کی وجہ سے زندگی میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویسے یہ فلم حقیقت سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ ہما قریشی اور سوناکشی سنہا کے دل کے بھی قریب کہی جا سکتی ہے کیونکہ ان دونوں کو ہھی ایک زمانے میں اُن کے وزن کی بنیاد پر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

فلم انڈسٹری میں لوگوں کے ایک نہیں بلکہ تین تین چہرے ہوتے ہیں

بالی ووڈ سے بار بار جا کر واپس آنے والی اداکارہ نرکس فخری کا کہنا ہے کہ فلم انڈسٹری میں لوگوں کے ایک نہیں بلکہ تین چہرے ہوتے ہیں: ایک بزنس کے لیے، دوسرا تخلیقی اور تیسرا پرسنل یعنی خود اپنے لیے۔

رنبیر کپور کے ساتھ فلم ’راک سٹار‘ سے اپنا فلمی کریئر شروع کرنے والی نرگس کا کہنا ہے کہ اس بالی وڈ کے کھیل میں لوگ ایک مختلف شبیہہ یا چہرہ لگا لیتے ہیں اور انھیں لگتا تھا کہ سیدھی اور سچی بات کرنا ہی بہتر ہے لیکن وہ نادان تھیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں انڈسٹری کے کھیل کا علم نہیں تھا۔

’مسالہ نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے نرگس کا کہنا تھا کہ جب وہ نئی تھیں تو انھیں نہیں معلوم تھا کہ بالی وڈ کلچر میں کس طرح رہنا ہے، یہاں کئی بار آپ کو ان لوگوں سے بھی بات کرنی پڑتی ہے جنھیں آپ پسند نہیں کرتے۔ یہاں رہتے ہوئے مجھے ڈپریشن ہونے لگا تھا اس لیے میں واپس اپنے گھر والوں کے پاس امریکہ چلی گئی تھی۔

حال ہی میں دبئی میں ہونے والے آئیفا ایوارڈز میں شرکت کرنے والی نرگس نے چند بڑی فلموں میں کام کیا اور کچھ ناکام فلموں کے بعد وہ امریکہ واپس چلی گئی تھیں۔ نرگس اب ایک بار پھر بالی وڈ میں واپسی کے لیے تیار ہیں تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس پراجیکٹ کے ساتھ بالی وڈ میں واپس آ رہی ہیں۔

ڈپریشن پر دیپیکا کی آگہی

ڈپریشن کی بات کی جائے تو دپیکا نے اس ذہنی مرض کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربات سب کے سامنے رکھ کر جس طرح بیداری پیدا کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔

رواں ہفتے برطانیہ کے پرنس چارلس کی بیگم میگن مارکل کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ کے دوران دپیکا نے بتایا کہ کس طرح لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اپنے ڈپریشن کی بات کو اپنی فلموں کے پروموشن کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

دپیکا نے ان افواہوں کو بھی مسترد کیا کہ ان کی شادی شدہ زندگی میں کسی طرح کے مسائل ہیں۔

دپیکا نے کہا کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جو آپ کو ایسے وقت میں بھی ہو سکتی ہے جب آپ نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انھیں اس صورتحال کا احساس ہوا تب ان کی فلمیں کامیاب ہو رہی تھیں، گھر اور باہر ان کی زندگی میں سکون تھا لیکن اچانک ایک صبح وہ بہیوش ہو گئیں اور اس کے بعد سے وہ ہمیشہ بغیر کسی وجہ کے روتی رہتی تھیں اور افسردہ رہنے لگیں۔

تاہم پروفیشنل مدد کے بعد وہ اپنی اس ذہنی کیفیت پر قابو پانے میں کامیاب رہیں۔

No comments:

Post a Comment